اسلام آباد (رزاق کھٹی) ملک کے سیاسی منظرنامے میں 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اب عدالتی اور سیاسی بحران ختم ہوگیا ہے، لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ یہ بحران ختم نہیں ہوا۔ اسی لیے اگلے ہفتے مزید قانون سازی کے امکانات بتائے جا رہے ہیں، جس سے نئے آئینی اور قانونی مسائل پیدا ہونے کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے سے متعلق قانون سازی کو قومی اسمبلی نے گزشتہ جمعرات اچانک ملتوی کردیا تھا۔ اگلے ہفتے اس قانون سازی میں ججوں کی تعداد میں اضافے اور ان کی سینیارٹی کے حوالے سے نئے نکات شامل کیے جانے کا امکان ہے۔
ذرائع کے مطابق، 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت کو یہ توقع تھی کہ تیسرے نمبر کے سینئر جج جسٹس یحییٰ آفریدی کے چیف جسٹس بننے کے بعد پہلے نمبر کے سینئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ اور دوسرے نمبر کے سینئر ترین جج جسٹس منیب اختر اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیں گے، لیکن حکومت کی خواہش اور اندازے کے برخلاف دونوں سینئر ججوں نے اپنے عہدوں سے استعفیٰ نہیں دیا۔ اس وجہ سے حکومت کے لیے یہ مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ آئینی بینچ کا سربراہ کس کو مقرر کیا جائے؟
ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کے لیے پریشانی یہ ہے کہ دو سینئر ججوں کی موجودگی میں آئینی بینچ کی سربراہی کا معاملہ کسی نئے آئینی اور قانونی مسئلے کو جنم دے سکتا ہے۔ اسی لیے حکومت نے اگلے ہفتے سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد میں اضافے اور سینیارٹی کا دوبارہ تعین کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اس قانون سازی میں سپریم کورٹ میں موجود دو سینئر ترین ججوں کی بجائے موجودہ چیف جسٹس کے بعد والے ججوں کی سینیارٹی کو بنیاد بنا کر فیصلہ کرے گی۔ اس طرح دو سینئر ججوں کے پاس اپنے عہدوں سے استعفیٰ دینے کے سوا کوئی اور راستہ نہیں رہے گا۔
ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت اگرچہ سادہ اکثریت کی بنیاد پر اس قانون سازی کو منظور کروا سکتی ہے، لیکن اگر چیف جسٹس سپریم کورٹ اس معاملے میں رکاوٹ ڈالتے ہیں تو حکومت کے لیے یہ قانون سازی کامیاب نہیں ہو سکے گی اور سپریم کورٹ قانون سازی کی تشریح کے تحت اس قانون کو روک سکتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سپریم کورٹ میں موجود گروپ بندی کو ختم کرنے کے لیے اہم فیصلے کر رہے ہیں تاکہ وہ سپریم کورٹ کے امور کو درست طریقے سے چلا سکیں۔ ذرائع نے کہا کہ آئندہ ہفتے ہونے والی قانون سازی کا دارومدار چیف جسٹس پر ہوگا؛ اگر انہوں نے سپریم کورٹ میں حکومت کی مداخلت کو مسترد کیا تو حکومت کے لیے نئی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں